ہم چاہتے ہیں اس ملک میںتبدیلی آئے، اور جلدی آئے۔ہمارا بھی جی کرتا ہے کہ،وہ تعبیر دیکھیں جس کا خواب ہمیں دکھایا جاتا رہا ہے۔ہم خلفائے راشدین کا نام لیتے اور بتاتے ہیں کہ اس دور کو واپس لائیں گے۔ہم میں سے کوئی بھی خلفائے راشدین کے پائوں کی خاک برابر بھی ہے ‘ ہرگز نہیں …!! ہم کیا انقلاب لا سکتے ہیں جو اپنی زندگی کے اندر انقلاب برپا نہیں کر سکے۔ ہمارے سیسی قائدین کہتے ہیں کہ وہ قائد اعظمؒ کی پیروی کرتے ہیں۔ کوئی بھی ان جیسا نہیںہے ۔ قائد اعظمؒ کی ایمانداری ‘ جرات ‘ کردار اور فراست کو ان ا میں سے کون پا سکتا ہے ؟حسن اے شیخ لکھتے ہیں : ’’ یہ ۱۹۴۶ء کا ذکر ہے ‘ میں ان دنوں مسلم لیگ مزنگ شاخ ( لاہور ) کے شعبہ نشرو اشاعت سے منسلک تھا۔ قائد اعظم ؒ لاہور تشریف لائے ‘ تو میںاپنے دوستوں کو ساتھ لیے اسمبلی ہال پہنچ گیا ۔ اگرچہ یہ بے ضابطگی تھی تاہم مجھے قائد اعظم کی اس شفقت کا زعم تھا جو وہ نوجوانوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔اسمبلی ہال کے باہر چبوترے پر تمام مسلم لیگی ارکان اسمبلی نیم دائرے کی شکل میں قائد اعظم ؒ کی استقبال کرنے جمع تھے۔ ہم پانچ چھ ساتھی بائیں طرف آرائشی پیالے والے ستون کے ساتھ کھڑے ہو گئے ۔ منتظمین میں سے بیشتر میرے شناسا تھے ۔ لہٰذا کوئی مزاحم نہ ہوا ۔ قائد اعظم ؒتشریف لائے ۔ گاڑی سے اتر کر انہوں نے سیڑھیوں پر قدم رکھا تو ہم اپنی جگہ سے کھسک کر آگے بڑھے ۔راجہ غضنفر علی خان نے ہمیں ٹوکا ۔ میںنے اپنے ساتھیوں کے ذوق و شوق کا ذکر کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ پل بھرکے لیے قائد اعظم سے ملنا ہے ۔ اس کے بعد ہم فوراً چلے جائیں گے۔ راجہ صاحب کا استدلال تھا کہ قائد اعظم ؒ کو یہ حرکت ناگوار گزرے گی کیونکہ وہ اس قسم کی بے قاعدگی پسند نہیں کرتے ۔ اتنے میں قائد اعظم ؒ چبوترے پر پہنچ چکے تھے۔ اتفاق سے اسی وقت وہ ہماری طرف متوجہ ہو گئے اور راجہ صاحب سے پوچھا ’’ What is the matter?‘‘ ( کیا معاملہ ہے ؟) انہوں نے بوکھلا کرمختصراً ماجرا بیان کیا ۔ قائد اعظم ؒ نے میری طرف دیکھا‘ ان کی عقابی نگاہیں دل کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ ایک سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں اتر گئی۔اچانک انہوںنے مسکراتے ہوئے کہا ’’First Youngester ‘‘( پہلے نوجوان ) یہ سن کر ہماری جان میں جان آئی ۔ جلدی جلدی ہم نے ان سے مصافحہ کیا اور خوش خوش واپس ہونے لگے ۔ اچانک انہوںنے ہمیں روک کر فرمایا ’’ Discipline First‘‘ ( پہلے نظم و ضبط ) اور ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔وہ لکھتے ہیں۔ ’’میں قائد اعظم ؒ کا اے ڈی ۔ سی تھا ۔ ایک بار ان کے ایک بھائی ملنے آئے ۔ انہوں نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جو میںنے قائد اعظم ؒ کو دیا ۔ قائد اعظم ؒ نے پوچھا ’’ یہ کون ہیں ؟‘‘ میںنے کہا ۔’’ آپ کے بھائی ہیں ۔‘‘ وہ بولے ’’ انہوںنے پہلے سے وقت لیا تھا ۔‘‘ میں نے کہا ’’ جی نہیں ۔‘‘ فرمایا ’’ انہیں کہو تشریف لے جائیں۔‘‘ میں دروازے کی طرف مڑا تو قائد اعظم ؒ نے مجھے دوبارہ بلایا ‘ کارڈ میرے ہاتھ سے لے کر سرخ پنسل سے اس پر ’’قائد اعظم ؒ‘‘ کا لفظ کاٹا ‘ پھر گورنر جنرل آف پاکستان کے بھائی کا لفظ کاٹا اور پھر مجھے کارڈ تھماتے ہوئے بولے ’’ ان سے کہو کارڈ پر صرف اپنا نام لکھیں ‘ مجھ سے یا گورنر جنرل کے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں ۔‘‘ میںنے باہر جا کر کارڈ ان کے بھائی کو دے دیا ۔ وہ چلے گئے اور پھر واپس نہ آئے ۔دلی میں قائد اعظم ؒ کا گھر سڑک کے عین اوپر تھا ۔لیکن اس کا رخ سڑک کی دوسری جانب تھا ۔ اس رخ پر گھر کے بالکل سامنے محکمہ پی ۔ ڈبلیو ۔ ڈی کے کچھ کوارٹر تھے۔ محکمے والوں نے ان کے گھر کے سامنے بیت الخلاء بنانے شروع کر دیے ۔ قائد اعظم ؒ کے دوستوں نے ان سے کہا ’’ آپ پی۔ ڈبلیو ۔ڈی والوں سے بات کریں ‘ وہ کبھی آپ کی بات رد نہیں کریں گے۔ ‘‘ قائد اعظم ؒنے کہا کہ میں ذاتی کام کے لیے کسی سرکاری محکمے کا احسان نہیں اٹھانا چاہتا ۔ چند دنوں بعد ایک موقعے پر قائد اعظم ؒ نے اپنا دایاں ہاتھ میز پر گھماتے ہوئے کہا ’’ I Turned my house like this‘‘( میںنے اپنے گھر کا رخ یوں بدل دیا ) انہوںنے اپنا گھر گرا کر اس کا رخ تبدیل کر دیا ‘ لیکن محکمے والوں سے بات نہ کی ۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے ایک مسلمان سول افیئر سنٹرل انٹیلی جنس میں متعین تھا۔ اس کی دلی ہمدردی پاکستان کے ساتھ تھی ۔ ایک روز اتفاقاً ایک فائل اس کے ہاتھ لگی جسے پڑھ کر اسے پتہ چلا کہ ہندو لیڈر در پردہ ایسے منصوبے بنا رہے ہیں کہ پاکستان بنتے ہی اسے اپاہج بنا دیا جائے۔ مسلمان افسر نے محسوس کیا کہ اس امر سے قائد اعظم ؒکو آگاہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش ہے ۔ اس نے یہ فائل چرا لی ‘ تین دن کی رخصت لی ‘ بھیس بدلا اور بمبئی روانہ ہوگیا ۔آدھی رات کو وہ قائدکی کوٹھی پر پہنچا ۔ اندر اپنے نام کی چٹ بھجوائی۔ تھوڑی دیر بعد قائد اعظم ؒنے اسے اندر بلا لیا ۔ مسلمان افسر نے مختصراً اپنی آمد کی وجہ بیان کی اور پھر فائل سامنے رکھ دی ۔ قائد اعظم ؒ نے بڑے اطمینان سے ساری فائل پڑھی پھر بولے ۔’’ نوجو ان ! کیا تم نے پاکستان میں ملازمت کیلئے OPT( خود کو پیش ) کیا ہے ؟‘‘ پیشتر اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا ‘ قائدا عظم ؒ نے کہا ’’ میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے افسروں کے لیے قطعاً کوئی جگہ نہیں جو دفتری راز غیر متعلقہ لوگوں پر فاش کریں ‘ اب تم جا سکتے ہو ۔‘‘ ( ممتاز مفتی ) قائد اعظم کے ملازم فقیر محمد کہتے ہیں: ’’میں قائد اعظم ؒکے پاس ملازم تھا ۔ ایک مرتبہ جمعہ کے دن میں نے مس فاطمہ جناح سے کہا ‘ مجھے نماز کے لیے چھٹی چاہیے ۔ انہوںنے اجازت دے دی ۔ اسی وقت بے بی ( قائد اعظم ؒ کی بیٹی ) اندر سے آئیں اور کہا کہ اسے اپنی سہیلیوں سے ملنے جانا ہے ۔ وہ کار کے ساتھ مجھے لے جانا چاہتی ہیں ۔ اگرچہ بے بی کی خاطر میں اپنے پروگرام میں ایک آدھ گھنٹے کی ترمیم کے لیے تیار تھا ‘ لیکن اسی دوران قائد اعظم ؒ تشریف لے آئے۔ انہوںنے بے بی سے سختی سے کہا ’’ فقیر محمد نماز جمعہ پڑھنے جا رہا ہے ‘ تم کار پر نہیں جا سکتیں ۔ کسی سے کہو ‘ تمہارے لیے ٹیکسی لے آئے ۔‘‘